نعت
رسول مقبول
|
|
کچھ نہیں مانگتا شاہوں
سے یہ شیدا تیرا |
اس کی دولت ہے فقط نقش
کف پا تیرا |
|
پورے قد سے میں کھڑا
ہوں تو یہ تیرا ہے کرم |
مجھ کو جھکنے نہیں
دیتا ہے سہارا تیرا |
|
دستگیری میری تنہائی
کی تو نے ہی تو کی |
میں تو مر جاتا اگر
ساتھ نہ ہوتا تیرا |
|
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ
تیرے پیکر کا نہ تھا |
میں تو کہتا ہوں جہاں
بھر پہ ہے سایہ تیرا |
|
میں تجھے عالم اشیا
میں بھی پا لیتا ہوں |
لوگ کہتے ہیں کہ ہے
عالم بالا تیرا |
|
شرق و غرب میں بکھرے
ہوئے گلزاروں کو |
نگہتیں بانٹتا ہے آج
بھی صحرا تیرا |
|
ندیاں بن کے پہاڑوں
میں تو سب گھومتے ہیں |
ریگزاروں میں بھی بہتا
رہا دریا تیرا |
|
تجھ سے پہلے کا جو
ماضی تھا ہزاروں کا سہی |
اب جو تا حشر کا فردا
ہے وہ تنہا تیرا |
|
ایک بار اور بھی بطحہ
سے فلسطین میں آ |
راستہ دیکھتی ہے مسجد
اقصی تیرا |
0 Comments