اشارہ
تو کرے
|
|
فاصلے سمٹ
جایئں گے راستے آسان ہو جائیں گے |
وہ پاس آنے
کا ہم سے کوئی بہانا تو کرے |
|
ہم کود
جائیں گے آگ کے سمندر میں بِن کچھ کہے |
ہماری قبر
پر آنے کا ہم سے وعدہ تو کرے |
|
اُس کی
صورت ہمیشہ کے لئیے آنکھوں میں قید کر لوں |
چہرے کی
دید دے کر وہ ہم سے تقاضا تو کرے |
|
مسکراہٹ
اُس کی دیکھ کر میں چہک سا جاؤں |
لبوں پر
مُسکرانے کا پیدا سامان تو کرے |
|
اُس کا
حصار بن جاؤں زمانے سے چرا لوں |
مجھ سے
چاہت کا اک بار گمان تو کرے |
|
ہمیشہ اُس
کے لبوں کی مسکراہٹ بن کر رہوں گا |
رکھ دوں
اُس کے قدموں میں سر وہ اشارہ تو کرے |
|
شاعر: سید
ذوالفقار حیدر
|
0 Comments