دل پر نقش تصویر
|
|
نرم شاخ
کے جیسی ہے کھلتے گلاب کے جیسی ہے |
صورت اس
قدر شاداب ہے حُسن و جمال کے جیسی ہے |
پلکیں
جھکانے سے جھک جائے حہاں اُٹھانے سے مہک جائے سماں |
تیری آمد
سے گلستان چہک رہا ہے تو بہار کے موسم کے حیسی ہے |
|
میری
خوابگاہ میں آ کر میری نیند چُرا لے جاتی ہے |
چمک دکھا
کر میرے ہوش اُڑا لے جاتی ہے |
نزدیک آ
کر اس قدر کیوں دور چلی جاتی ہے |
میرے دل
میں ہلچل مچاتی ہے میری بے قراری کے جیسی ہے |
|
سوچتا ہوں
کب اپنے چہرے سے نقاب اُٹھائے گی |
صورت
دکھائے گی جب پھر مجھے چین کی نیند آئے گی |
مجھے بے
چین کر کے کیسی پُر مسرت ہے ساون کی گھٹا |
جھوم رہی
ہے مسرور ہے مہکی آوارہ فضاء کے جیسی ہے |
|
جلوے دکھا
کر خوابوں میں آ کر اس طرح کیوں ستاتی ہے |
گھونگھٹ
اگر اُٹھانا نہیں تو اپنی جھلک پھر کیوں دکھاتی ہے |
مار ڈالیں
گیں تیری یہ ادائیں میرے محبوب سمجھا کر |
بھول سکتا
ہوں کیسے تمہیں میرے دل پر نقش تصویر کے جیسی ہے |
|
شاعر: سید
ذوالفقار حیدر
|
0 Comments