جو بھی ہوا بھول جاتے ہیں
|
|
کاش کہ
جانیں کس کرب میں مبتلا ہیں |
ہمارا دل
بے وجہ جو جلاتے رہے ہیں |
|
میرے پیار
کی قدر وہ کیا جانیں |
کانچ جان
کر دل پر جو چوٹ لگاتے رہے ہیں |
|
کہتے ہیں
پہلے جیسے نہیں اب ہم بدل گئے ہیں |
زمانے کو
جو اپنا غلام بناتے رہے ہیں |
|
مسکرانے
کا کہیں جب بھی ملتے ہیں |
ہمیں
مسکراتا دیکھ جو منہ بناتے رہے ہیں |
|
مجھ سے
تعلق جوڑنے کی خواہش ہے انہیں |
دامن جو
مجھ سے ہمیشہ چھڑاتے رہے ہیں |
|
بدل گیا
ہے وقت چہرے بھی بدل گئے ہیں |
مہربان
ہیں اب صدا جو زخم لگاتے رہے ہیں |
|
ممکن ہے
رات ڈھل گئی ہو ان کے غرور کی |
اوروں کو
ہمیشہ نیچا جو دکھاتے رہے ہیں |
|
میرے دل
کا چمن اپنی بے رخی سے اجاڑ دیا |
کھلانےکی
خواہش ہے جن پھولوں کو خود کملاتے رہے ہیں |
|
چلو جو
بھی ہوا بھول جاتے ہیں تیرے سارے ستم |
بس مٹا دو
میرے دل پر لگے داغ خود ہی جو لگاتے رہے ہیں |
|
شاعر: سید
ذوالفقار حیدر
|
0 Comments