جدا رہنے کی سزا دیتا ہے
|
|
جب بھی
تمہیں یاد کروں پلکیں بھیگ جاتی ہیں |
تیرا
بچھڑنا ناسور بن کر دل کو زخم دیتی ہے |
آخر جھوٹی
نکلیں وہ قسمیں بے وفا نکلا تُو بھی |
تجھ سے
بڑھ کر تجھے چاہا پھر بھی تُو فریب دیتا ہے |
|
زمانے سے
بیگانہ ہوا سکون میں تھا اب بے قرار ہوں |
سانسوں
میں بسایا تجھے مہکے پھولوں کی چاشنی کی طرح |
مسکرانا
سکھایا خوشگوار سپنے بُنے تیرے لئے |
کیسے ایک
لمحے میں چھوڑ دیا کیا خاص اہمیت دیتا ہے |
|
پہلی
ملاقات میں درد دل بڑھا کر مسکراتا تھا |
میری خوشی
کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتا تھا |
میرے پیار
بھرے خط پڑھ کر مہک سا جاتا تھا |
بدلا ہے
کیسے ظالم انجانے زخمِ جدائی دیتا ہے |
|
میرے چہرے
کو مہتاب ہونٹوں کو چھلکتا جام کہتا تھا |
میری دید
کواپنی آنکھوں کی آرزو دل کا قرار کہتا تھا |
چاہت کے
باوجود انجانے پن کو اپنی مجبوری کہتا تھا |
پیار تھا
درمیان پھر کیوں جدا رہنے کی سزا دیتا ہے |
|
شاعر: سید
ذوالفقار حیدر
|
0 Comments