معلوم نہیں کیا کہتی ہے
|
|
اُس کا
انداز کیا کہتا ہے خشک زبان کیا کہتی ہے |
ٹوٹے
ارمان کیا کہتے ہیں جھکی نظر کیا کہتی ہے |
اظہارِ
بیان کیسا سادہ ہے پر کیسی ہے کشمکش |
اگرچہ
ساغر پاس ہے لبوں کی پیاس معلوم نہیں کیا کہتی ہے |
|
کسی کو
چاہتی ہے سب سے چھپا کر اپنا ارمان بنا کر |
رات کو
چاند دیکھتی ہے حیا کی چادر اوڑھ کر |
تلاش اس
میں اپنے محبوب کو کرے سپنوں میں کھو کر |
کھوئی
ہوئی نگاہ شام سے معلوم نہیں کیا کہتی ہے |
|
اپنا سب
کچھ اسی کو جانے اپنی سحر و شب مانے |
موسم اسی
کے دم سے ہیں خوشگوار دل بہار اس کے |
نرم و
نازک سی وہ چنچل اس انجان کو اپنی زندگی جانے |
زلفوں میں
اس کے ہاتھوں کی جنبش اس پل سے معلوم نہیں کیا کہتی ہے |
|
اک دن کی
قربت اس کی زندگی پر چھا گئی |
بچھڑنے
والے وہ لمحات اسے عجب سا انتظار دے گئے |
ریگستان
میں سراب کی طرح اپنے محبوب کو وہ نادان پائے |
محبت کی
ریت پر جلتی ہوئی صورت معلوم نہیں کیا کہتی ہے |
|
شاعر: سید
ذوالفقار حیدر
|
0 Comments