چلے گئے
|
|
بیچ
دوراہے میں لا کر اکیلا چھوڑ کر چلے گئے |
وعدے ساتھ
رہنے کے کیے اور نبھائے بغیر چلے گئے |
تم نے
مجھے سمجھا ہی نہیں اس لئیے اچانک |
بے وفائی
کا داغ لگا کر روتے ہوئے چلے گئے |
|
کتنی
مشکلوں سے پایا تھا تمہیں دنیا کی بھیڑ سے |
اپنی ہستی
کو بھلا بیٹھے تمہیں دل میں بسا بیٹھے |
زمانے کے
الزام بھی سہے تیرے لئے خندہ پیشانی سے |
اتنے کرب
اُٹھائے جس کے لئے وہ بھی الزام لگائے چلے گئے |
|
اپنی دلکش
کشش سے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اُس نے |
کئی بار
ہٹایا قدموں کو تیری طرف پھر بھی چل دیے |
تیرے ساتھ
کی خوشگواری سے کیسا مہک سا جاتا میں |
میرے
ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ کا رُخ بدل کر چلے گئے |
|
مجھے چاہت
کا دھوکا دیا میرے ارمانوں سے کھیلتے رہے |
پیار کے
سہانے خواب دیے مہتاب کہہ کر پکارتے رہے |
میرے شدت
محبت پر شک تھا کیوں اتنی دور چلتے رہے |
میں کتنا
قرار میں تھا مجھے بے چین کر کے چلے گئے |
|
شاعر: سید
ذوالفقار حیدر
|
0 Comments