اور میں کیا کہوں
|
|
تمہیں
دیکھتے ہی پروانہ بنا اور میں کیا کہوں |
پروانے کی
طرح شمع پہ جلا اور میں کیا کہوں |
|
نظریں
ملتے ہی دل میں ہلچل ہوئی اور میں کیا کہوں |
ایک شعلہ
سا بڑھکا سینے میں اور میں کیا کہوں |
|
تیری
پیشانی پر زلفوں کا گر کر سنبھلنا اور میں کیا کہوں |
میری
سوچوں پر اچانک چھا جانا اور میں کیا کہوں |
|
نظریں ملا
کر تیرا شرما جانا اور میں کیا کہوں |
تیرے
ہونٹوں کی سرخی رخساروں کی جُنبش اور میں کیا کہوں |
|
تیری
پلکوں پر پانی کے چند قطرے اور میں کیا کہوں |
مجھے
ویرانے میں سراب کی طرح انکا نظر آنا اور میں کیا کہوں |
|
تیری
اداوَں کا دل پر ستم ڈھانا اور میں کیا کہوں |
میرا پھر
بھی صرف تجھ ہی کو چاہنا اور میں کیا کہوں |
|
بن تیرے
ساتھ کے جینا اب ممکن نہیں اور میں کیا کہوں |
ذوالفقار
کے دل کی دھڑکن ہو تم اور میں کیا کہوں |
|
شاعر: سید
ذوالفقار حیدر
|
0 Comments