Header Ads Widget

 احتساب کا عمل اور جمہوریت کو درپیش خطرات


پاکستان میں آج کل ان لوگوں کے احتساب کا عمل شروع ہوا ہے جو خود کو پاکستان کا مالک گمان کرتے رہے ہیں اگرچہ یہ عمل بہت سست روی کا شکار ہے پھر بھی کافی خوش آئند بات ہے کہ اب جو لوگ صاحب اقتدار رہے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کر کے نا صرف اپنی جیبیں بھرتے رہے ہیں بلکہ اپنے حواریوں کی بھی بھرپور دلجوئی کرتے رہیں اور اپنے نمائندوں اور منطور نظر افراد کو ڈویلپمنٹ فنڈز کی زد میں نوازا جاتا رہا ہے

اب اگر نیب اپنا کام خوش اصلوبی سے کر رہی ہے اور ملک کے نامی گرامی لوگوں نواز اور شہباز شریف اور آصف علی زرداری جیسے پاکستانی سیاست کے بڑے ناموں اور ان کے حواریوں پر ہاتھ ڈال کر ان کے کالے دھن کی تحقیق کر رہی ہے تو پاکستانی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے

 یہ سب نیب زدہ سیاست دان نیب کے کردار کو اور تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو مشکوک بنانے کی غرض سے ان کا گٹھ جوڑ ثابت کرنے میں مصروف عمل ہیں اور ہر کسی آپشن جیسے سیاسی وابستگیاں بیوروکریٹس اور میڈیا کو بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ یہ جو احتساب کا ماحول بنا ہوا جس کی وجہ سے نہ صرف ان کا کالا دھن بلکہ سیاست کا بھی خاتمہ ہوتا دکھ رہا ہے

آج کل جب بھی نیب کسی سیاست دان پر پہلے سے بنے ہوئے کیسز اور کچھ حالیہ کیسز جن کی بنیاد کرپشن اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے ملکی خزانہ اور معشیت کو نقصان پہنچانا ہے عمل درآمد کی کوشش کرتا ہے تو یہ سب کردار کے ہلکے سیاست دان جمہوریت کو خطرہ کا مقبول نعرا لگانا شروع کر دیتے ہیں

پوری دنیا میں کرپشن کی بنا پر سربراہان مملکت کو سزائیں ہو رہی ہیں ان کے اثاثے منجمد ہو رہے ہیں انہیں جیل کی کال کوٹھری میں اپنی زندگیاں گزارنی پڑ رہی ہیں وہاں تو پاکستان کے برعکس جمہوریت خطرے میں نہیں جاتی بلکہ مضبوطی میں آتی ہے اور انصاف اور احتساب کا بول بولا ہوتا ہے

حال ہی میں بنگلہ دیش کی سابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیاء کو اپنے خاوند کے نام پر چیرٹی فنڈز میں غیر قانونی طور پر رقم جمع کرنے پر ۷ سال کی مزید سزا سنا دی گئی وہ پہلے سے ہی ۵ سال کی سزا کاٹ رہی تھی خالدا ضیاء کا ۷۳ برس کا ہونا نہ ہی اس کا تابناک سیاسی کیرئیر اسے اس تذلیل اور قید و بند کی صعوبتوں سے بچا پایا

ذرا سوچیَے ضرور کیوں صرف پاکستان ہی میں جب بھی کسی بڑے آدمی کا احتساب ہونے لگتا ہے ملک کی سالمیت اور جمہوریت خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے آخر کیوں!

 

 

مصنف: سید ذوالفقار حیدر


Post a Comment

0 Comments