|
|
موج جو
ساحل سے ٹکرائے نہیں تو کدھر جائے |
آنسو جو
پلکوں پر اترائے نہیں تو کدھر جائے |
|
شمع تو
مسکراتی رہے پروانے کو جلاتی رہے رات بھر |
پروانا
اگر موت کی آغوش میں جائے نہیں تو کدھر جائے |
|
مُسکرانا
اگرچہ ہر کوئی چاہے صدا عمر بھر |
ہجر جو
عاشق کو تڑپائے نہیں تو کدھر جائے |
|
عشق کی
پیاس مل جائے جشے روح میں اتر جائے |
ساغر یار
کی پلکوں سے چھلک جائے نہیں تو کدھر جائے |
|
مانا پاس
آنے سے جزبات بکھرنے کا اندیشہ ہے تجھے |
قربت اگر
دوری مٹائے نہیں تو کدھر جائے |
|
نازک سی
کلی تیری زلف میں سجنے سے اتراتی ہے |
چمن جو
تیرے آنے سے اترائے نہیں تو کدھر جائے |
|
بخشتا ہے
چند ساعتیں پیار بھری کئی برسوں کے بعد |
انتظار
زندگی کا جزو بن جائے نہیں تو کدھر جائے |
|
شاعر: سید
ذوالفقار حیدر
|
0 Comments