کون جانے ہے
|
|
میری
پلکیں جُھکی ہیں کس لئیے کون جانے ہے |
آنسووں سے
تر ہیں کیوں کس لئیے کون جانے ہے |
وہ سپنے
ہی ٹوٹ گئیے جو میری زندگی تھے |
سمٹ کر رہ
گئے کس لئیے کون جانے ہے |
|
کون کہتا
ہے خفا ہوں میں بدلتے زمانے سے |
دوش ہے ہی
کیا بدلتے زمانے کا تُو ہی جو بے وفا نکلا |
کئی برس
ڈھونڈا تجھے ملے بھی تو کس حال میں |
آنکھیں
دکھا رہی ہیں اب جو منظر کون جانے ہے |
|
محفل میں
بیٹھ کر تنہائی سے میری وابستگی ہے |
جیسا کبھی
سوچا نہ تھا اب میرا وہ حال ہے |
خطا اتنی
سی تھی فقط تجھے چاہا میں نے |
زخم پہلے
بھی کم نہ تھے کیوں اور لگے کون جانے ہے |
|
اب معلوم
ہوا میری قسمت میں تُو ہے ہی نہیں |
میری
زندگی کا حاصل میری سوچوں کا محور تُو ہے ہی نہیں |
پھر بھی
تجھے پیار کروں اس بے بسی کا کیا میں کہوں |
سمٹ رہی
ہے کیوں میری زندگی میرے ارمان کون جانے ہے |
|
شاعر: سید
ذوالفقار حیدر
|
0 Comments